کسی کا نام صفات باری تعالی میں سے ہو تو بغیر عبد ملائے پکارنا درست نہیں
*🕋کسی کا نام صفات باری تعالی میں سے ہو تو بغیر عبد ملائے پکارنا درست نہیں🕋*
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں
ہمارے یہاں پانچ بھائی ہیں جن میں ہر ایک کا نام عبد کے ساتھ مثلاً عبد القادر،عبد الخالق، عبد القیوم، عبد الواحد وغیرہ ناچیز یہ دریافت کرتا ہے کہ اکثر لوگ لفظ عبد چھوڑ کر نام پکارتے ہیں تو کیا ایسا کہنا از روئے شرع درست ہے یا نہیں اگر نہیں تو ان لوگوں پر کیا حکم شرع ہے ؟؟
بیّنواتوجروا
*🖤العارض شاہد رضا خان بکارو جھاڑ کھنڈ🖤*
▶▶▶▶▶▶▶▶▶▶▶
*📝الجواب بعون الملک الوہاب :*
*ایسے ناموں سے لفظ عبد کا حزف بہت برا ہے- اور کبھی ناجائز و گناہ ہوتا ہے اور کبھی سرحد کفر تک بھی پہنچا دیتا ہے قادر کا اطلاق تو غیر پر جائز ہے - اس صورت میں عبد القادر کو قادر کہ کر پکارنا برا ہے، مگر قدیر کا اطلاق غیر خدا پر نا جائز ہے - کما فی البیضاوی اور اگر کسی کا نام عبد القدوس، عبد الرحمن، عبد القیوم ہے تو اسے قدوس، رحمن، قیوم کہنا ایسا ہی جیسے اسے جس کا نام عبد اللہ ہو اللہ کہنا بہت سخت بات ہے، والعیاذ باللہ الباری، جس کا نام عبد القادر ہو اسے عبد القادر ہی کہا جائے جس کا نام عبد القدیر اسے عبد القدیر ہی کہنا ضروری ہے-*
*📚فتاویٰ مصطفویہ ،کتاب الایمان، صفحہ نمبر ٩٠*
*صورت مستفسرہ کے مطابق عبد الرحمن اور عبد القیوم جس کے عبد کو لوگ حزف کر کے پکارتے ہیں اس طرح مخلوق کو ذریعے پکارنے کو علماء کرام نے کفر قرار دیا ہے، جیسا کہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے :*
*مجمع الانہر میں ہے:*
*اذا اطلق علی المخلوق من الاسماء المختصۃ بالخالق نحو القدوس والقیوم والرحمٰن وغیرھا یکفر ۔*
*ترجمہ :جو اللہ تعالٰی کے مخصوص ناموں میں سے کسی نام کا اطلاق مخلوق پر کرے، جیسے قدوس، قیوم اور رحمن وغیرہ تو وہ کافر ہوجائے گا۔*
*📚مجمع الانھر، شرح ملتقی الابحرثم ان الفاظ الکفر انواع دار احیا التراث العربی بیروت۱/ ۶۹۰*
*اسی طرح(اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی) اور کتابوں میں ہے۔حتی کہ خود اسی شرح فقہ اکبر صفحہ ۲۴۵ میں تحریر فرماتے ہیں :*
*من قال لمخلوق یا قدوس اوالقیوم او الرحمٰن کفر ۔*
*جو کسی مخلوق کو قدوس یا قیوم یا رحمٰن کہے کافر ہوجائے۔*
*📘(بحوالہ) منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر فصل فی الکفر صریحا وکنایۃ ،مصطفی البابی مصر ،ص۱۹۳*
*📚فتاویٰ رضویہ ،کتاب السیر ،جلد ١٥ ،صفحہ نمبر ٥٥٩*
*لیکن...... جو نادانستہ طور پر اس طرح پکارتے ہیں انہیں کافر تو نہیں کہا جا سکتا ہے ہاں کچھ مخصوص اسماء الہیہ کو بلا عبد کے پکارنا حرام ضرور ہے، جیسا شہزادہ اعلٰی حضرت مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا :*
*حدیقہ ندیہ میں ہے :و أعلم أن التسمی بهذه الإسم حرام و کذا التسمية بأسماء الله تعالی المختصة به کالرحمن و القدوس و المهین و خالق الخلق و نحوها- و کذا فی الشرح النووي علی صحیح مسلم -*
*📚فتاویٰ مصطفویہ ،صفحہ نمبر ٩٠*
*نوٹ : اس زمانہ میں چونکہ عوام میں ناموں کی تصغیر کرنے کا بکثرت رواج ہوگیا ہے،لہذا جہاں ایسا گمان ہو ایسے نام سے بچنا ہی مناسب ہے۔خصوصا جب کہ اسماء الہیہ کے ساتھ عبد کا لفظ ملا کر نام رکھا گیا، مثلا عبدالرحیم، عبدالکریم، عبدالعزیز کہ یہاں مضاف الیہ سے مراد اﷲ تعالی ہے اور ایسی صورت میں تصغیر اگر قصدا ہوتی تو معاذاﷲکفر ہوتی، کیونکہ یہ اس شخص کی تصغیر نہیں بلکہ معبود برحق کی تصغیر ہے مگر عوام اور ناواقفوں کا یہ مقصد یقینا نہیں ہے، اسی لیے وہ حکم نہیں دیا جائے گا بلکہ اون کو سمجھایا اور بتایا جائے اور ایسے موقع پر ایسے نام ہی نہ رکھے جائیں جہاں یہ احتمال ہو۔*
*📘(بحوالہ)* *''الدرالمختار''و''ردالمحتار''،کتاب الحظر والإباحۃ،فصل في البیع،ج۹،ص۶۸۸*
*📚بہار شریعت جلد سوم ،حصہ ١٦،نام رکھنے کا بیان، صفحہ نمبر ٦٠٥*
*هذا ما ظهر لي و الله سبحانه وتعالى أعلم*
▶▶▶▶▶▶▶▶▶▶▶
*✍🏻کـــتــبــہ*
*حضرت علامہ مفتی محمد امتیاز حسین قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی لکھنؤ یو پی*
*الجواب صحیح فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم دارالحدیث ودارالافتاء جامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت پاکستان کراچی*
*٢/٢/١٤٤٠ھ صفرالمظفر :12/10/2018*
*رابــطــہ 📞7634094126*
*🍎آپ کا سوال ہمارا جواب گروپ 🍎*
*🖥المـــــرتب محـــــمد امتیــــازالقــــادری*
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں
ہمارے یہاں پانچ بھائی ہیں جن میں ہر ایک کا نام عبد کے ساتھ مثلاً عبد القادر،عبد الخالق، عبد القیوم، عبد الواحد وغیرہ ناچیز یہ دریافت کرتا ہے کہ اکثر لوگ لفظ عبد چھوڑ کر نام پکارتے ہیں تو کیا ایسا کہنا از روئے شرع درست ہے یا نہیں اگر نہیں تو ان لوگوں پر کیا حکم شرع ہے ؟؟
بیّنواتوجروا
*🖤العارض شاہد رضا خان بکارو جھاڑ کھنڈ🖤*
▶▶▶▶▶▶▶▶▶▶▶
*📝الجواب بعون الملک الوہاب :*
*ایسے ناموں سے لفظ عبد کا حزف بہت برا ہے- اور کبھی ناجائز و گناہ ہوتا ہے اور کبھی سرحد کفر تک بھی پہنچا دیتا ہے قادر کا اطلاق تو غیر پر جائز ہے - اس صورت میں عبد القادر کو قادر کہ کر پکارنا برا ہے، مگر قدیر کا اطلاق غیر خدا پر نا جائز ہے - کما فی البیضاوی اور اگر کسی کا نام عبد القدوس، عبد الرحمن، عبد القیوم ہے تو اسے قدوس، رحمن، قیوم کہنا ایسا ہی جیسے اسے جس کا نام عبد اللہ ہو اللہ کہنا بہت سخت بات ہے، والعیاذ باللہ الباری، جس کا نام عبد القادر ہو اسے عبد القادر ہی کہا جائے جس کا نام عبد القدیر اسے عبد القدیر ہی کہنا ضروری ہے-*
*📚فتاویٰ مصطفویہ ،کتاب الایمان، صفحہ نمبر ٩٠*
*صورت مستفسرہ کے مطابق عبد الرحمن اور عبد القیوم جس کے عبد کو لوگ حزف کر کے پکارتے ہیں اس طرح مخلوق کو ذریعے پکارنے کو علماء کرام نے کفر قرار دیا ہے، جیسا کہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے :*
*مجمع الانہر میں ہے:*
*اذا اطلق علی المخلوق من الاسماء المختصۃ بالخالق نحو القدوس والقیوم والرحمٰن وغیرھا یکفر ۔*
*ترجمہ :جو اللہ تعالٰی کے مخصوص ناموں میں سے کسی نام کا اطلاق مخلوق پر کرے، جیسے قدوس، قیوم اور رحمن وغیرہ تو وہ کافر ہوجائے گا۔*
*📚مجمع الانھر، شرح ملتقی الابحرثم ان الفاظ الکفر انواع دار احیا التراث العربی بیروت۱/ ۶۹۰*
*اسی طرح(اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی) اور کتابوں میں ہے۔حتی کہ خود اسی شرح فقہ اکبر صفحہ ۲۴۵ میں تحریر فرماتے ہیں :*
*من قال لمخلوق یا قدوس اوالقیوم او الرحمٰن کفر ۔*
*جو کسی مخلوق کو قدوس یا قیوم یا رحمٰن کہے کافر ہوجائے۔*
*📘(بحوالہ) منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر فصل فی الکفر صریحا وکنایۃ ،مصطفی البابی مصر ،ص۱۹۳*
*📚فتاویٰ رضویہ ،کتاب السیر ،جلد ١٥ ،صفحہ نمبر ٥٥٩*
*لیکن...... جو نادانستہ طور پر اس طرح پکارتے ہیں انہیں کافر تو نہیں کہا جا سکتا ہے ہاں کچھ مخصوص اسماء الہیہ کو بلا عبد کے پکارنا حرام ضرور ہے، جیسا شہزادہ اعلٰی حضرت مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا :*
*حدیقہ ندیہ میں ہے :و أعلم أن التسمی بهذه الإسم حرام و کذا التسمية بأسماء الله تعالی المختصة به کالرحمن و القدوس و المهین و خالق الخلق و نحوها- و کذا فی الشرح النووي علی صحیح مسلم -*
*📚فتاویٰ مصطفویہ ،صفحہ نمبر ٩٠*
*نوٹ : اس زمانہ میں چونکہ عوام میں ناموں کی تصغیر کرنے کا بکثرت رواج ہوگیا ہے،لہذا جہاں ایسا گمان ہو ایسے نام سے بچنا ہی مناسب ہے۔خصوصا جب کہ اسماء الہیہ کے ساتھ عبد کا لفظ ملا کر نام رکھا گیا، مثلا عبدالرحیم، عبدالکریم، عبدالعزیز کہ یہاں مضاف الیہ سے مراد اﷲ تعالی ہے اور ایسی صورت میں تصغیر اگر قصدا ہوتی تو معاذاﷲکفر ہوتی، کیونکہ یہ اس شخص کی تصغیر نہیں بلکہ معبود برحق کی تصغیر ہے مگر عوام اور ناواقفوں کا یہ مقصد یقینا نہیں ہے، اسی لیے وہ حکم نہیں دیا جائے گا بلکہ اون کو سمجھایا اور بتایا جائے اور ایسے موقع پر ایسے نام ہی نہ رکھے جائیں جہاں یہ احتمال ہو۔*
*📘(بحوالہ)* *''الدرالمختار''و''ردالمحتار''،کتاب الحظر والإباحۃ،فصل في البیع،ج۹،ص۶۸۸*
*📚بہار شریعت جلد سوم ،حصہ ١٦،نام رکھنے کا بیان، صفحہ نمبر ٦٠٥*
*هذا ما ظهر لي و الله سبحانه وتعالى أعلم*
▶▶▶▶▶▶▶▶▶▶▶
*✍🏻کـــتــبــہ*
*حضرت علامہ مفتی محمد امتیاز حسین قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی لکھنؤ یو پی*
*الجواب صحیح فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم دارالحدیث ودارالافتاء جامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت پاکستان کراچی*
*٢/٢/١٤٤٠ھ صفرالمظفر :12/10/2018*
*رابــطــہ 📞7634094126*
*🍎آپ کا سوال ہمارا جواب گروپ 🍎*
*🖥المـــــرتب محـــــمد امتیــــازالقــــادری*
Comments
Post a Comment