تہجد کی نماز سنت ہے یا نفل
*♣تہجد کی نماز سنت ہے یا نفل♣*
تہجد کی نماز سنت ہے یا نفل تشفی بخش جواب سے نوازے
*🌹سائل محمد افضل🌹*
ـــــــــــــــــــــــ💠🌹💠ــــــــــــــــــــــ
*✍الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب*
*صورۃ مستفسرہ میں تہجد سنت مستحبہ ہے تمام مستحب نمازوں سے اعظم واہم، قرآن واحادیث حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ترغیب سے مالامال، عامہ کتب مذہب میں اسے مندوبات و مستحبات سے گنا اور سنت موکدہ سے جدا ذکر کیا، تو اس کا تارک اگرچہ فضل کبیر و خیر کثیر سے محروم ہے گنہگار نہیں، بحرالرائق و عالمگیری و در مختار و فتح اللہ المعین السید ابوالسعود الازہری میں ہے،، المندوبات صلاۃ الليل،، (رات کی نماز مندوبات میں سے ہے) مراقي الفلاح میں ہے (سنن تحية المسجد و ندب صلاة الليل) (تحیتہ المسجد سنت اور رات کی نماز مستحب ہے) غنیہ شرم منیہ میں ہے، (من النوافل المستحبةقیام اللیل،،(نوافل مستحبہ میں سے رات کی نماز ہے)*
*حلیہ میں ہے*
*مشي صاحب الحاوي القدسي علي انها مندوبة (صاحب الحاوی القدسی کی رائے یہی ہے کہ رات کی نماز مستحب ہے)*
*شرح نقایہ قہستانی میں ہےثمان ركعات بتسلمية اوتسليتين للتهجد وقيل له ركعتان سنة وقيل فرض كما في المحيط،،،،،،، تہجد کی ایک یا دو سلاموں کے ساتھ آٹھ رکعات ہیں بعض کے نزدیک دو رکعت سنت ہے بعض کے نزدیک یہ فرض ہے جیسا کہ محیط میں ہے*
*امام ابن ھمام قدس سرہ،،نے فرمایا کہ باقی رہا معاملہ رات کی نماز کا کہ آیا ہمارے حق میں سنت ہے یا مستحب، تو یہ بات اس پر موقوف ہے کہ وہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کیا تھی اگر وہ آپ پر فرض تھی تو ہمارے حق میں مستحب ہے کیونکہ اولہ قولیہ اس کے بارے میں مستحب ہونے کا فائدہ دیتی ہیں اور مواظبت فعلیہ نفل پر نہیں کہ وہ ہمارے حق میں سنت بن جائے اور اگر آپ کے لئے یہ نفل تھی تو ہمارے لئے یہ سنت ہوگی*
*اب اسی مبنی کو دیکھتے ہوئے تو اس میں بھی قول جمہور مذہب مختار وہ منصوب حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرضیت ہے اسی پر ظاہر قرآن عظیم شاہد اور اسی طرف حدیث مرفوع وارد،،،،،،*
*قال اللہ تعالی يايها المزمل قم الليل (اللہ تعالی کا فرمان ہے ایے چادر اوڑھنے والے رات کو قیام کیا کرو) دوسرے مقام پر فرمایا، ومن الليل فتهجد به(رات کو تہجد ادا کیا کرو)*
*ان آیتوں میں خاص حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو امرالہی ہے اور امر الہی مفید وجوب،، ثابت ہوا کہ یہ نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی اور انکی امتیوں پر مستحب*
*(المختصر)*
*📚فتاوی رضویہ جدید جلد صفحہ (398 /403)*
*🌹واللہ و رسولہ اعلم بالصواب🌹*
ـــــــــــــــــــــــــ💠🌹💠ــــــــــــــــــــــــ
*✍از قلم حضرت علامہ مولانا محمد راشد مکی صاحب قبلہ مدظلہ العالی و النورانی گرام ملک پور ضلع کٹیہار بہار ہند*
*بتاریخ ۲۰/ ربیع الاول شریف -------- ۱۴۴۰ -------- بمطابق 29/ نومبر ـ 2018*
*💠آپ کا سوال ہمارا جواب گروپ💠*
*رابـطــہ 📞 8743811087*
*🖥المــــرتب محــــمد امتیـــازالقـــادری*
ــــــــــــــــــــــ💠🌹💠ــــــــــــــــــــــ
تہجد کی نماز سنت ہے یا نفل تشفی بخش جواب سے نوازے
*🌹سائل محمد افضل🌹*
ـــــــــــــــــــــــ💠🌹💠ــــــــــــــــــــــ
*✍الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب*
*صورۃ مستفسرہ میں تہجد سنت مستحبہ ہے تمام مستحب نمازوں سے اعظم واہم، قرآن واحادیث حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ترغیب سے مالامال، عامہ کتب مذہب میں اسے مندوبات و مستحبات سے گنا اور سنت موکدہ سے جدا ذکر کیا، تو اس کا تارک اگرچہ فضل کبیر و خیر کثیر سے محروم ہے گنہگار نہیں، بحرالرائق و عالمگیری و در مختار و فتح اللہ المعین السید ابوالسعود الازہری میں ہے،، المندوبات صلاۃ الليل،، (رات کی نماز مندوبات میں سے ہے) مراقي الفلاح میں ہے (سنن تحية المسجد و ندب صلاة الليل) (تحیتہ المسجد سنت اور رات کی نماز مستحب ہے) غنیہ شرم منیہ میں ہے، (من النوافل المستحبةقیام اللیل،،(نوافل مستحبہ میں سے رات کی نماز ہے)*
*حلیہ میں ہے*
*مشي صاحب الحاوي القدسي علي انها مندوبة (صاحب الحاوی القدسی کی رائے یہی ہے کہ رات کی نماز مستحب ہے)*
*شرح نقایہ قہستانی میں ہےثمان ركعات بتسلمية اوتسليتين للتهجد وقيل له ركعتان سنة وقيل فرض كما في المحيط،،،،،،، تہجد کی ایک یا دو سلاموں کے ساتھ آٹھ رکعات ہیں بعض کے نزدیک دو رکعت سنت ہے بعض کے نزدیک یہ فرض ہے جیسا کہ محیط میں ہے*
*امام ابن ھمام قدس سرہ،،نے فرمایا کہ باقی رہا معاملہ رات کی نماز کا کہ آیا ہمارے حق میں سنت ہے یا مستحب، تو یہ بات اس پر موقوف ہے کہ وہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کیا تھی اگر وہ آپ پر فرض تھی تو ہمارے حق میں مستحب ہے کیونکہ اولہ قولیہ اس کے بارے میں مستحب ہونے کا فائدہ دیتی ہیں اور مواظبت فعلیہ نفل پر نہیں کہ وہ ہمارے حق میں سنت بن جائے اور اگر آپ کے لئے یہ نفل تھی تو ہمارے لئے یہ سنت ہوگی*
*اب اسی مبنی کو دیکھتے ہوئے تو اس میں بھی قول جمہور مذہب مختار وہ منصوب حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرضیت ہے اسی پر ظاہر قرآن عظیم شاہد اور اسی طرف حدیث مرفوع وارد،،،،،،*
*قال اللہ تعالی يايها المزمل قم الليل (اللہ تعالی کا فرمان ہے ایے چادر اوڑھنے والے رات کو قیام کیا کرو) دوسرے مقام پر فرمایا، ومن الليل فتهجد به(رات کو تہجد ادا کیا کرو)*
*ان آیتوں میں خاص حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو امرالہی ہے اور امر الہی مفید وجوب،، ثابت ہوا کہ یہ نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی اور انکی امتیوں پر مستحب*
*(المختصر)*
*📚فتاوی رضویہ جدید جلد صفحہ (398 /403)*
*🌹واللہ و رسولہ اعلم بالصواب🌹*
ـــــــــــــــــــــــــ💠🌹💠ــــــــــــــــــــــــ
*✍از قلم حضرت علامہ مولانا محمد راشد مکی صاحب قبلہ مدظلہ العالی و النورانی گرام ملک پور ضلع کٹیہار بہار ہند*
*بتاریخ ۲۰/ ربیع الاول شریف -------- ۱۴۴۰ -------- بمطابق 29/ نومبر ـ 2018*
*💠آپ کا سوال ہمارا جواب گروپ💠*
*رابـطــہ 📞 8743811087*
*🖥المــــرتب محــــمد امتیـــازالقـــادری*
ــــــــــــــــــــــ💠🌹💠ــــــــــــــــــــــ
Comments
Post a Comment