کیا تنہا نماز پڑھنے والا ظہر وعصر میں اتنی آواز سے قرت کرسکتاہے کہ خود پڑھ کر خودسن سکے
*🔹کیا تنہا نماز پڑھنے والا ظہر وعصر میں اتنی آواز سے قرت کرسکتاہے کہ خود پڑھ کر خودسن سکے؟🔹*
السلام علیکم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین
تنہا نماز پڑھنے والا ظہر عصر کی نماز میں قرآت اتنی بلند آواز سے کر سکتا ہے کہ صرف خود سن سکے ؟
یا تنہا نماز پڑھنے والا سری نماز میں قرآت کا صرف تصور کرے یعنی دل کے دل میں پڑھے خود کو بھی آواز نہ سنائی دے ۔
برائے مہربانی حوالہ سے مزین جواب عنایت فرمائیں ۔نوازش ہوگئ ۔
سائل: محمد ضیاء بھساول ۔
ا_______🔹⛔🔹________
*وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛*
*الشروع فی الجواب بعون الملک الوہاب؛*
قراءت اس کا نام ہے کہ تمام حروف مخارج سے ادا کیے جائیں ،کہ ہر حرف غیر سے صحیح طور پر ممتاز ہو جائے اور آہستہ پڑھنے میں بھی اتنا ہونا ضرور ہے کہ خود سنے، صرف دل سے پڑھنے میں قرات کی تعریف صادق نہیں آئیگی اگر حروف کی تصحیح تو کی مگر اس قدر آہستہ کہ خود نہ سنا اور کوئی مانع مثلاً شور و غل یاثقل سماعت بھی نہیں ، تو نماز نہ ہوئی یوہیں جس جگہ کچھ پڑھنا یا کہنا مقرر کیا گیا ہے، اس سے یہی مقصد ہے کہ کم سے کم اتنا ہو کہ خود سن سکے، مثلاً طلاق دینے، آزاد کرنے،جانور ذبح کرنے میں ۔
*وَأَمَّا حَدُّ الْقِرَاءَةِ فَنَقُولُ تَصْحِيحُ الْحُرُوفِ أَمْرٌ لَا بُدَّ مِنْهُ فَإِنْ صَحَّحَ الْحُرُوفَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُسْمِعْ نَفْسَهُ لَا يَجُوزُ وَبِهِ أَخَذَ عَامَّةُ الْمَشَايِخِ هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ وَهُوَ الْمُخْتَارُ. هَكَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ وَهُوَ الصَّحِيحُ. هَكَذَا فِي النُّقَايَةِ وَعَلَى هَذَا نَحْوُ التَّسْمِيَةِ عَلَى الذَّبِيحَةِ وَالِاسْتِثْنَاءِ فِي الْيَمِينِ وَالطَّلَاقِ وَالْعَتَاقِ وَالْإِيلَاءِ وَالْبَيْعِ،،)*
*(📕فتاوی ھندیہ جلد اول صفحہ 69.)*
جہر اور سر میں اگر چہ اختلاف ہے مگر اصح قول یہی ہے کہ جہر میں غیر بھی سنے اور سر میں خود سنے.
*اخْتَلَفُوا فِي حَدِّ الْجَهْرِ وَالْمُخَافَتَةِ قَالَ الْفَقِيهُ أَبُو جَعْفَرٍ وَالشَّيْخُ الْإِمَامُ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ أَدْنَى الْجَهْرِ أَنْ يُسْمِعَ غَيْرَهُ وَأَدْنَى الْمُخَافَتَةِ أَنْ يُسْمِعَ نَفْسَهُ وَعَلَى هَذَا يُعْتَمَدُ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ وَهُوَ الصَّحِيحُ،،)*
*(📙فتاوی ھندیہ جلد اول صفحہ 72.)*
*واللہ ورسولہ اعلم بالصواب؛*
ا_______🔹❣🔹________
*کتبـــہ؛*
*حضرت علامہ مفتی محمد محمد شہروز عالم رضوی اکرمی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی صدر شعبئہ افتاء دارالعلوم قادریہ حبیبیہ فیلخانہ ہوڑہ بنگال؛*
*الجواب صحیح محمد منظوراحمد یارعلوی دارالعلوم برکاتیہ گلشن نگرجوگیشوری ممبئی*
*🔹گروپ آپکا سوال ھمارا جواب؛🔹*
*مورخہ؛17/10/2018)*
*رابطہ؛📞9883016746)*
ا_______🔹⛔🔹_______
*المشتــــہر؛*
*منجانب؛آپکا سوال ھـــمارا جواب گروپ؛محمد عقیـــل احمد قادری حنفی احمد آباد گجرات انڈیا؛*
ا________((🍅))_________
السلام علیکم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین
تنہا نماز پڑھنے والا ظہر عصر کی نماز میں قرآت اتنی بلند آواز سے کر سکتا ہے کہ صرف خود سن سکے ؟
یا تنہا نماز پڑھنے والا سری نماز میں قرآت کا صرف تصور کرے یعنی دل کے دل میں پڑھے خود کو بھی آواز نہ سنائی دے ۔
برائے مہربانی حوالہ سے مزین جواب عنایت فرمائیں ۔نوازش ہوگئ ۔
سائل: محمد ضیاء بھساول ۔
ا_______🔹⛔🔹________
*وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛*
*الشروع فی الجواب بعون الملک الوہاب؛*
قراءت اس کا نام ہے کہ تمام حروف مخارج سے ادا کیے جائیں ،کہ ہر حرف غیر سے صحیح طور پر ممتاز ہو جائے اور آہستہ پڑھنے میں بھی اتنا ہونا ضرور ہے کہ خود سنے، صرف دل سے پڑھنے میں قرات کی تعریف صادق نہیں آئیگی اگر حروف کی تصحیح تو کی مگر اس قدر آہستہ کہ خود نہ سنا اور کوئی مانع مثلاً شور و غل یاثقل سماعت بھی نہیں ، تو نماز نہ ہوئی یوہیں جس جگہ کچھ پڑھنا یا کہنا مقرر کیا گیا ہے، اس سے یہی مقصد ہے کہ کم سے کم اتنا ہو کہ خود سن سکے، مثلاً طلاق دینے، آزاد کرنے،جانور ذبح کرنے میں ۔
*وَأَمَّا حَدُّ الْقِرَاءَةِ فَنَقُولُ تَصْحِيحُ الْحُرُوفِ أَمْرٌ لَا بُدَّ مِنْهُ فَإِنْ صَحَّحَ الْحُرُوفَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُسْمِعْ نَفْسَهُ لَا يَجُوزُ وَبِهِ أَخَذَ عَامَّةُ الْمَشَايِخِ هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ وَهُوَ الْمُخْتَارُ. هَكَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ وَهُوَ الصَّحِيحُ. هَكَذَا فِي النُّقَايَةِ وَعَلَى هَذَا نَحْوُ التَّسْمِيَةِ عَلَى الذَّبِيحَةِ وَالِاسْتِثْنَاءِ فِي الْيَمِينِ وَالطَّلَاقِ وَالْعَتَاقِ وَالْإِيلَاءِ وَالْبَيْعِ،،)*
*(📕فتاوی ھندیہ جلد اول صفحہ 69.)*
جہر اور سر میں اگر چہ اختلاف ہے مگر اصح قول یہی ہے کہ جہر میں غیر بھی سنے اور سر میں خود سنے.
*اخْتَلَفُوا فِي حَدِّ الْجَهْرِ وَالْمُخَافَتَةِ قَالَ الْفَقِيهُ أَبُو جَعْفَرٍ وَالشَّيْخُ الْإِمَامُ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ أَدْنَى الْجَهْرِ أَنْ يُسْمِعَ غَيْرَهُ وَأَدْنَى الْمُخَافَتَةِ أَنْ يُسْمِعَ نَفْسَهُ وَعَلَى هَذَا يُعْتَمَدُ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ وَهُوَ الصَّحِيحُ،،)*
*(📙فتاوی ھندیہ جلد اول صفحہ 72.)*
*واللہ ورسولہ اعلم بالصواب؛*
ا_______🔹❣🔹________
*کتبـــہ؛*
*حضرت علامہ مفتی محمد محمد شہروز عالم رضوی اکرمی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی صدر شعبئہ افتاء دارالعلوم قادریہ حبیبیہ فیلخانہ ہوڑہ بنگال؛*
*الجواب صحیح محمد منظوراحمد یارعلوی دارالعلوم برکاتیہ گلشن نگرجوگیشوری ممبئی*
*🔹گروپ آپکا سوال ھمارا جواب؛🔹*
*مورخہ؛17/10/2018)*
*رابطہ؛📞9883016746)*
ا_______🔹⛔🔹_______
*المشتــــہر؛*
*منجانب؛آپکا سوال ھـــمارا جواب گروپ؛محمد عقیـــل احمد قادری حنفی احمد آباد گجرات انڈیا؛*
ا________((🍅))_________
Comments
Post a Comment